بسم اللہ والصلوة علی رسول اللہ
امابعد
داڑھی ایک مشت رکھنا واجب ہے اور ایک مشت سے کم کروانا ترک واجب ہے اور ایسا شخص فاسق معلن ہے اس کی امامت میں نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے اور ایک مشت سے زیادہ کو کٹوانا سنت ہے۔
روایات ملاحظہ فرمائیں۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
عشر من الفطرۃ قص الشارب واعفاء اللحیۃ الحدیث ، رواہ مسلم ۱؎۔
یعنی دس چیزیں سنت قدیم انبیاء عظام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی ہیں ان سے مونچھیں کم کرانا اور داڑھی حد شرع تک چھوڑدینا(اس کو مسلم نے روایت کیا۔ ت)
(۱؎ صحیح مسلم کتاب الطہارۃ باب خصال الفطرۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۲۹)
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالٰی شرح میں فرماتے ہیں:
حلق کردن لحیہ حرام ست وروش افرنج وہنود وجوالقیان کہ ایشاں راقلندریہ نیز گویند وگزاشتن آں بقدر قبضہ واجب ست وآں کہ آنرا سنت گویند بمعنی طریقہ مسلوک دردین ست یا بجہت آنکہ ثبوت آں بہ سنت ست چنانکہ نماز عیدرا سنت گفتہ اند ۲؎۔
داڑھی منڈانا حرام ہے، یہ افرنگیوں، ہندؤوں اور جوالقیوں کا طریقہ ہے جو قلندریہ بھی کہلاتے ہیں ۔ اور داڑھی بمقدار ایک مٹھی چھوڑنا واجب ہے اور داڑھی کے متعلق جو کہا جاتاہے کہ یہ سنت ہے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ دین میں ایک جاری طریقہ ہے یا یہ وجہ ہے کہ اس کا ثبوت سنت کے ساتھ ہے جیسا کہ نماز عید کو سنت کہتے ہیں۔ (ت)
(۲؎ اشعۃ اللمعات کتاب الطہارۃ باب السواک الفصل الاول مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/ ۲۱۲)
فتح القدیر میں ہے:
الاخذ منھا وھی دون ذٰلک کما یفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال ۲؎۔
داڑھی تراشنا یا کترنا کہ وہ مشت کی مقدار سے کم ہوجائے ناجائز ہے جیسا کہ بعض مغربیت زدہ لوگ اور ہیجڑے کرتے ہیں۔ (ت)
(۲؎ فتح القدیر باب الصیام باب مایوجب القضاۃ والکفارۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۲/ ۲۷۰)
فی الھندیہ من الملتقط لاباس اذا طالت لحیتہ طولا وعرضا لکنہ مقید بما اذا زاد علی القبضۃ ۳؎۔
فتاوٰی ہندیہ میں بحوالہ __الملتقط__ منقول ہے کہ جب داڑھی طول اور عرض میں بڑھ جائے تو ایک مشت مقدار سے زائد کاٹ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(ت)
(۳؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الکراہیۃ الباب التاسع عشر نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۳۵۸)
شیخ محقق رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مدارج النبوۃ میں فرماتے ہیں:
عادت سلف دریں باب مختلف بود آوردہ اند کہ لحیہ امیر المومنین علی پرمی کرد سینہ اُورا وہمچنیں عمر وعثمان رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین و نوشتہ اند کان الشیخ محی الدین رضی اﷲ تعالٰی عنہ طویل اللحیۃ وعریضھا ۱؎۔
اسلاف کی عادت اس بارے میں مختلف تھی چنانچہ منقول ہے کہ امیر المومنین حضر ت علی رضی اللہ عنہ کی داڑھی ان کے سینے کو بھردیتی تھی اس طرح حضرت فاروق اعظم اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہماکی مبارک داڑھیاں تھیں، اور لکھتے ہیں کہ شیخ محی الدین سیدنا عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ لمبی داڑھی اور چوڑی داڑھی والے تھے۔ (ت)
(۱؎ مدارج النبوت باب اول بیان لحیۃ شریف مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/ ۱۵)
سیدنا عبداللہ بن عمر و ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہم اپنی ریش مبارک مٹھی میں لے کر جس قدر زیادہ ہوتی کم فرمادیتے ۔ بلکہ یہ کم فرمانا خود حضور پر نور صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ سے ماثور امام محمد کتاب الآثار میں فرماتے ہیں:
اخبرنا ابوحنیفہ عن الھیثم عن ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنھما انہ کان یقبض علی لحیتہ ثم یقص ماتحت القبضہ ۱؎۔
ہم سے امام ابوحنیفہ نے ارشاد فرمایا ان سے ابوالہیثم نے ان سے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما نے کہ حضرت عبداللہ اپنی داڑھی مٹھی میں پکڑ کر زائد حصہ کو کترڈالتے تھے۔ (ت)
(۱؎ کتاب الآثار باب خف الشعر من الوجہ روایۃ ۹۰۰ ادارۃ القرآن کراچی ص۱۹۸)
ابوداؤد ونسائی مروان بن سالم سے راوی :
رأیت ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما یقبض علی لحیتہ فیقطع مازاد علی الکف ۲؎۔
میں نے عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کو دیکھا کہ اپنی داڑھی مٹھی میں لے کر زائد بالوں کو کاٹ ڈالا کرتے تھے۔ (ت)
(۲؎ سنن ابی داؤد کتاب الصوم باب القول عند الافطار آفتاب عالم پریس لاہور ۱/ ۳۲۱)
مصنف ابوبکر بن ابی شیبہ میں ہے:
کان ابوھریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ یقبض علی لحیتہ ثم یأخذ مافضل عن القبضہ ۳؎۔
(۳؎ المصنف ابن ابی شیبہ کتاب الحظروالاباحۃ باب ماقالوا من الاخذمن اللحیۃ ادارۃ القرآن کراچی ۸/ ۳۷۴)
فتح القدیر میں ان آثار کو نقل کرکے فرمایا:
انہ روی عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ۴؎۔
باوجود اس کے کہ یہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے راویت کی گئی ۔ (ت)
(۴؎ فتح القدیر کتاب الصوم باب مایوجب القضاء والکفارۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۲/ ۲۷۰)
ہمارے ائمہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے اسی کو اختیار فرمایا اور عامہ کتب مذہب میں تصریح فرمائی کہ داڑھی میں سنت یہی ہے کہ جب ایک مشت سے زائد ہو کم کردی جائے بلکہ بعض اکابر نے اسے واجب فرمایا اگر چہ ظاہر یہی ہے کہ یہاں وجوب سے مراد ثبوت ہے نہ کہ وجوب مصطلح، امام محمد رحمہ اللہ تعالٰی بعد روایت حدیث مذکور فرماتے ہیں:
بہ ناخذ وھو قول ابی حنیفۃ ۵؎۔
ہم اسی کو لیتے ہیں اور حضرت امام ابوحنیفہ کا یہی قول ہے۔ (ت)
(۵؎کتاب الآثار باب خف الشعر من الوجہ روایۃ ۹۰۰ ادارۃ القرآن کراچی ص۱۹۸)
نہایۃ سے منقول:
بہ اخذ ابوحنیفۃ وابویوسف ومحمد ۱؎کذا ذکرا بوالیسر فی جامعہ الصغیر۔
اسی کو حضرت امام ابوحنیفہ، قاضی ابویوسف، اورامام محمد نے اختیار کیا ہے۔ اسی طرح ابوالیسر نے اس کو جامع صغیر میں ذکر کیا ہے۔ (ت)
(۱؎ العنایۃ علی ہامش فتح القدیر کتا ب الصوم باب مایوجب القضاء الخ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۲/ ۲۶۹)
مرقاۃ باب الترجل میں ہے:
مقدار قبضہ علی ماھوا لسنۃ والاعتدال المتعارف ۲؎۔
مقدار مشت ہی سنت ہے اور مشہور مبنی برمیانہ روی ہے اور یہی راہ اعتدال ہے۔ (ت)
(۲؎ مرقات المفاتیح کتاب اللباس باب الترجل الفصل الاول المکتبہ الحبیبیہ کوئٹہ ۸/ ۲۱۱)
ردالمحتار میں ہے:
ھو ان یقبض الرجل لحیتہ فمازاد منہا علی قبضۃ قطعہ کذا ذکر محمد فی کتاب الآثار عن الامام قال وبہ ناخذ محیط اھ ط ۱؎۔
مرد اپنی داڑھی کو اپنی مٹھی میں لے کر زائد حصہ کو کاٹ دے، امام محمد رحمہ اللہ تعالٰی نے کتا ب الآثار میں امام صاحب کے حوالہ سے یہی ذکر فرمایا ہے اور مزید فرمایا ہم اسی مؤقف کے قائل ہیں محیط اھ ط (ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی البیع داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۲۶۱)
ہندیہ میں محیط امام سرخسی سے ہے:
القص سنۃ فیہا وھو ان یقبض الی آخر مامر ۲؎۔
داڑھی کے زائد حصہ کو کتردینا سنت ہے اور وہ یہ ہے کہ بقدر ایک مشت داڑھی چھوڑ کر باقی زائد کو کتر ڈالے (ت)
(۲؎ فتاوی ہندیہ کتاب الحظروالاباحۃ الباب التاسع عشر نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۳۵۸)
اختیار شرح مختار سے منقول ہے۔
التقصیر فیھا سنۃ وھو ان یقبض ۳؎ الخ۔
ایک مٹھی بھر داڑھی سے زائد بالوں کا کتردینا سنت ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ داڑھی کو مٹھی بھر میں پکڑ کر زائد حصہ کتر ڈالا جائے الخ (ت)
(۳؎ الاختیار لتعلیل المختار کتاب الکراہیۃ فصل فی آداب ینبغی للمؤمن دارالمعرفۃ بیروت ۴/ ۱۶۷)
واللہ تعالی اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم
خادم العلماء فقیر محمد اسحاق قادری
0 Comments