افضلیت حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ

السلام علیکم درج ذیل سوالات کے جوابات دلائل کےساتھ ارشاد فرمادیں
1 کیا کوئی غیر نبی کسی نبی سے افضل ہوسکتا ہے
2 انبیاء کرام کےبعد افضل بشر کون ہے
3 خلافت راشدہ کی جو ترتیب ہے فضیلت کی بھی یہی ترتیب ہے یا فضیلت کی اور کوئی ترتیب ہے
4 کیا حضرت علی المرتضی شیخین یعنی حضرت صدیق اکبر اور فاروق اعظم سے فضیلت میں افضل ہیں۔
بسم اللہ والصلوة على رسول الله
اوپر دیے گئے سوالات کے جوابات ترتیب وار عرض کرتا ہوں
 ج1- انبیاء کرام تمام مخلوق یہاں تک کہ رسل ملائکہ سے بھی افضل ہیں ولی کتنا ہی بڑے مرتبہ والا ہو کسی نبی کے برابر نہیں ہوسکتا۔ جو کسی غیر نبی کو کسی نبی سے افضل یا برابر بتائے کافر ہے۔
(تفسیر الخازن ج2 ص33 سورہ الانعام آیت 86، شرح المقاصد ج3 ص 320،321)
ج 2،3- انبیاء و مرسلین کے بعد سب سے افضل صدیق اکبر ہیں۔ پھر فاروق اعظم پھر عثمان غنی پھر مولی علی۔ ان کی خلافت فضیلت کی ترتیب پر ہے۔ یعنی جو عنداللہ افضل و اعلی واکرم تھا وہی پہلے خلافت پاتاگیا نہ کہ افضلیت برتیب خلافت۔
(شرح العقائد النسفیة ص 149،150)
ج4- جو شخص مولی علی کو صدیق یا فاروق سے افضل بتائے گمراہ بدمذہب ہے۔
( فتاوی بزازیہ ج6 ص 319 / فتح القدیر ج1 ص 304)
اب آئیے ذرا کتب احادیث کی طرف بڑھتے ہیں اور مولی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی بارگاہ سے صدیق اکبر اور فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہما کی  فضیلت پوچھتے ہیں۔
صحیح بخاری شریف میں امام محمد بن حنفیہ صاحبزادہ امیر المؤمنین مولٰی علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ الکریم سے ہے:

قال قلت لابی ای الناس خیر بعد النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال ابوبکر قال قلت ثم من، قال ثم عمرثم خشیت ان اقول ثم من فیقول عثمان فقلت ثم انت یا ابت، فقال ما انا الاّرجل من المسلمین۲؎، رواہ ایضا ابن ابی عاصم و خشیش وابو نعیم فی الحلیۃ الاولیاء۔

میں نے اپنے والدماجد مولٰی علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے عرض کی نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے بعد سب آدمیوں سے بہتر کون ہے؟فرمایا: ابوبکر۔ میں نے کہا پھر کون؟ فرمایا: پھر عمر۔پھر مجھے خوف ہوا کہ کہیں میں کہوں پھر کون تو فرمادیں عثمان، اس لئے میں نے سبقت کر کے کہا اے باپ میرے! پھر آپ؟فرمایا: میں تو نہیں مگر ایک مرد مسلمانوں میں سے (اسے ابن ابی عاصم اور خشیش اور ابو نعیم نے بھی حلیۃ الاولیاء میں بیان کیا ہے۔ت)

 (۲ ؎ صحیح بخاری، کتاب المناقب،فضائل ابی بکر رضی اﷲ تعالٰی عنہ، قدیمی کتب خانہ کراچی،۱/ ۵۱۸)

(جامع الاحادیث بحوالہ خ و د وابن ابی عاصم و خشیش وغیرہ، حدیث ۷۷۱۴ دارالفکر بیروت، ۱۶/ ۲۱۷)

(کنزالعمال ، بحوالہ خ و د وابن ابی عاصم و خشیش وغیرہ، ۳۶۰۹۴ موسسۃ الرسالہ،بیروت،۱۳/ ۷)
طبرا نی معجم اوسط میں صلہ بن زفر سے راوی، جب امیر المؤمنین مولٰی علی کے سامنے لوگ ابوبکر صدیق کا ذکر کرتے ، امیر المؤمنین فرماتے:

السباق یذکرون السابق یذکرون والذی نفسی بیدہ ما استبقنا الٰی خیر قط الاسبقنا الیہ ابوبکر۱؎

ابوبکر کا بڑی سبقت والے ذکر کر رہے ہیں کمال پیشی لے جانے والے کا تذکرہ کرتے ہیں قسم اس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے جب ہم نے کسی خیر میں پیشی چاہی ہے ابوبکر ہم سب پر سبقت لے گئے ہیں۔

 (۱ ؎ المعجم الاوسط، حدیث ۷۱۶۴،مکتبۃ المعارف الریاض، ۸/ ۸۲)

(جامع الاحادیث بحوالہ طس،حدیث ۷۶۸۸، دارالفکر بیروت، ۱۶/ ۲۰۹)
ابو القاسم طلحی وابن ابی عاصم وابن شاہین واللالکائی سب اپنی اپنی کتاب السنہ میں اور عشاری فضائل صدیق اور اصبہانی کتاب الحجہ اور ابن عساکر تاریخ دمشق میں راوی، امیر المؤمنین کو خبر پہنچی کچھ لوگ انہیں ابو بکر و عمر (رضی اﷲ تعالٰی عنہما) سے افضل بتاتے ہیں منبر شریف پر تشریف لے گئے حمد و ثنائے الٰہی کے بعد فرمایا:

ایھا الناس بلغنی ان اقواما یفضلو نی علی ابی بکر و عمر ولو کنت تقدمت فیہ لعاقبت فیہ، فمن سمعتہ بعد ھذا الیوم یقول ھذا فھو مفتر، علیہ حد المفتری خیرالناس بعد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ابو بکر ثم عمر(زاد غیر الطلحی) ثم احدثنا بعضھم احدا ثا یقضی اﷲ فیھا ما یشاء۲؎

اے لوگو! مجھے خبر پہنچی کہ کچھ لوگ مجھے ابو بکر و عمر پر فضیلت دیتے ہیں اگر میں پہلے متنبہ کرچکا ہوتا تو اب سزا دیتا، آج کے بعد جسے ایسا کہتا سنوں گا وہ مفتری ہے، اس پر مفتری کی حد آئے گی، رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے بعد سب آدمیوں سے بہتر ابوبکر ہیں،پھر عمر، پھر ان کے بعد ہم سے کچھ نئے امور واقع ہوئے کہ خدا ان میں جو چاہے گا حکم فرمائے گا۔

 (۲ ؎ کنزالعمال بحوالہ ابن ابی عاصم و ابن شاہین واللالکائی والعشاری، حدیث ۳۶۱۴۳،موسسۃ الرسالۃ،بیروت، ۱۳/ ۲۱)

(جامع الاحادیث ابن ابی عاصم و ابن شاہین واللالکائی والعشاری، حدیث ۷۷۳۵،دارالفکر بیروت، ۱۶/ ۲۲۲)
امام ابو عمران عبدالبراستیعاب میں حکم بن حجل سے اور امام ابو الحسن دارقطنی سنن میں روایت کرتے ہیں امیر المؤمنین مولا علی فرماتے ہیں:

لا اجد احدا فضلنی علی ابی بکر و عمر الاجلد تہ حد المفتری۱؎

میں جسے پاؤں گا کہ ابو بکر و عمر پر مجھے تفضیل دیتا ہے اسے مفتری کی حد اسّی کوڑے لگاؤں گا۔

 (۱ ؎ جامع الاحادیث عن الحکم بن حجل عن علی، حدیث ۷۷۴۷، دارالفکر بیروت، ۱۶/ ۲۲۵)

(مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر، ترجمہ ۲۲، عبداﷲ ابن ابی قحافہ، دارالفکر بیروت، ۱۳/ ۱۱۰)
ابن عساکر بطریق الزہری عن عبداﷲ بن کثیر راوی، امیر المؤمنین فرماتے ہیں:

لا یفضلنی احد علی ابی بکر و عمر الاجلد تہ جلداوجیعا۲؎

جو مجھے ابو بکر و عمر سے افضل کہے گا اسے دردناک کوڑے لگاؤں گا۔

 (۲ ؎ جامع الاحادیث بحوالہ ابن عساکر عن علی، حدیث ۷۷۲۳، دارالفکر بیروت، ۱۶/ ۲۱۹)

(کنزالعمال بحوالہ ابن عساکر عن علی، حدیث ۳۶۱۰۳، موسسۃ الرسالۃ، بیروت، ۱۳/ ۹)
امام احمد مسند اور عدنی مائتین اور ابو عبید کتاب الغریب اور نعیم بن حماد فتن اور خثیمہ بن سلیمان طرابلسی فضائل الصحابہ اور حاکم مستدرک اور خطیب تلخیص المتشابہ میں راوی، امیر المؤمنین فرماتے ہیں:

سبق رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وصلی ابوبکر وثلث عمر ثم خطبتنا فتنۃ و یعفواﷲ عمن یشاء۳؎ ،

وللخطیب وغیرہ فھو ما شاء اﷲ زاد ھو فمن فضلنی علی ابی بکر وعمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما فعلیہ حد المفتری من الجلد و اسقاط الشہادۃ ۴؎

رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سبقت لے گئے اور ان کے دوسرے ابوبکر اور تیسرے عمر ہوئے، پھر ہمیں فتنے نے مضطرب کیا اور خدا جسے چاہے معاف فرمائے گا یا فرمایا جو خدا نے چاہا وہ ہوا تو جو مجھے ابو بکر و عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما پر فضیلت دے اس پر مفتری کی حد واجب ہے اسّی کوڑے لگائے جائیں اور گواہی کبھی نہ سنی جائے۔

 (۳ ؎ المستدرک علی الصحیحین کتاب معرفۃ الصحابہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم، مناقب ابی بکر، دارالفکر بیروت، ۳/ ۶۸۔۶۷)

(۴؎ کنزالعمال بحوالہ خط فی تلخیص المتشابہ، حدیث ۳۶۱۰۲، موسسۃ الرسالہ،بیروت، ۱۳/ ۹)

(جامع الاحادیث خط فی تلخیص المتشابہ، حدیث ۷۷۲۲، دارالفکر بیروت،۱۶/ ۲۱۹)
امام احمد مسند اور عدنی مائتین اور ابو عبید کتاب الغریب اور نعیم بن حماد فتن اور خثیمہ بن سلیمان طرابلسی فضائل الصحابہ اور حاکم مستدرک اور خطیب تلخیص المتشابہ میں راوی، امیر المؤمنین فرماتے ہیں:

سبق رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وصلی ابوبکر وثلث عمر ثم خطبتنا فتنۃ و یعفواﷲ عمن یشاء۳؎ ،

وللخطیب وغیرہ فھو ما شاء اﷲ زاد ھو فمن فضلنی علی ابی بکر وعمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما فعلیہ حد المفتری من الجلد و اسقاط الشہادۃ ۴؎

رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سبقت لے گئے اور ان کے دوسرے ابوبکر اور تیسرے عمر ہوئے، پھر ہمیں فتنے نے مضطرب کیا اور خدا جسے چاہے معاف فرمائے گا یا فرمایا جو خدا نے چاہا وہ ہوا تو جو مجھے ابو بکر و عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما پر فضیلت دے اس پر مفتری کی حد واجب ہے اسّی کوڑے لگائے جائیں اور گواہی کبھی نہ سنی جائے۔

 (۳ ؎ المستدرک علی الصحیحین کتاب معرفۃ الصحابہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم، مناقب ابی بکر، دارالفکر بیروت، ۳/ ۶۸۔۶۷)

(۴؎ کنزالعمال بحوالہ خط فی تلخیص المتشابہ، حدیث ۳۶۱۰۲، موسسۃ الرسالہ،بیروت، ۱۳/ ۹)

(جامع الاحادیث خط فی تلخیص المتشابہ، حدیث ۷۷۲۲، دارالفکر بیروت،۱۶/ ۲۱۹)
ابن عسا کر سیدنا عمار بن یا سر رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے راوی، امیر المؤمنین مولٰی علی کرم اﷲتعالٰی وجہہ نے فرمایا:

لایفضلنی احد علی ابی بکر و عمر الاوقد انکر حقی وحق اصحاب رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم۲؎

جو مجھے ابوبکر و عمر پر تفضیل دے گا وہ میر ے اور تمام اصحاب رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے حق کا منکر ہوگا۔

 (۲؎جامع الاحادیث بحوالہ ابن عساکر، حدیث ۷۷۳۳، دارالفکر بیروت، ۱۶/ ۲۲۔۲۲۱)
ابو ذر ہروی و دارقطنی وغیرہما حضرت ابو جحیفہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی میں نے امیر المؤمنین سے عرض کی:

یا خیرالناس بعد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فقال مھلا یا ابا جحیفۃ الا اخبرک بخیر الناس بعد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ابو بکر و عمر۱؎

یا خیر الناس بعد رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرمایا ٹھہرواے ابو جحیفہ! کیا میں تمہیں نہ بتادوں کہ کون ہے؟فرمایا اے ابوجحیفہ! خیر الناس بعد رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ابو بکر و عمر (رضی اﷲ تعالٰی عنہما) ہیں۔

 (۱ ؎ جامع الاحادیث بحوالہ الصابونی فی المائتین، حدیث ۷۷۳۴، دارالفکر بیروت، ۱۶/ ۲۲۲)

(کنزالعمال بحوالہ الصابونی فی المائتین، وطس وکر حدیث ۳۶۱۴۱،موسسۃ الرسالہ، بیروت، ۱۳/ ۲۱)

ابو نعیم حلیہ اور ابن شاہین کتاب السنہ اور ابن عساکر تاریخ میں عمرو بن حریث سے راوی میں نے امیر المؤمنین مولٰی علی کرم اﷲ وجہہ کو منبر پر فرماتے سنا:

ان افضل الناس بعد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ابوبکر و عمر و عثمان وفی لفظ ثم عمر ثم عثمان۲؎

بیشک رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے بعد سب آدمیوں سے افضل ابو بکر و عمر و عثمان ہیں، اور بالفاظ دیگر پھر عمر پھر عثمان۔

 (۲ ؎ کنز العمال، بحوالہ ابن عسا کر وحل ابن شاہین فی السنہ، حدیث ۸۰۰۶،دارالفکربیروت، ۱۶/ ۲۹۰)
ابن عساکر بطریق سعد ابن طریف اصبغ بن نباتہ سے راوی، فرمایا : قلت لعلی یا امیر المؤمنین من خیر الناس بعد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم؟ قال ابوبکر،قلت ثم من؟ قال ثم عمر،قلت ثم من؟ قال ثم عثمان، قلت ثم من؟ قال انا رأیت رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بعینی ھاتین والا فعمیتا، وباذنی ھاتین والافصمتا،یقول ماولد فی الاسلام مولود ازکٰی ولا اطھر ولا افضل من ابی بکر ثم عمر۳؎

میں نے مولٰی علی سے عرض کی یا امیر المؤمنین! رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل کون ہے؟ فرمایا: ابوبکر۔ میں نے کہا: پھر کون؟فرمایا:عمر،کہا پھر کون؟فرمایا:عثمان، کہا:پھر کون؟فرمایا:میں، میں نے ان آنکھو ں سے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو دیکھا ورنہ یہ آنکھیں پھوٹ جائیں اور ان کانوں سے فرماتے سنا ورنہ بہرے ہوجائیں حضور فرماتے تھے اسلام میں کوئی شخص ایسا پیدا نہ ہوا جو ابوبکر پھر عمر سے زیادہ پاکیزہ زیادہ فضیلت والا ہو۔

 (۳ ؎ جامع احادیث ابن عساکر حدیث ۸۰۲۳، دارالفکر بیروت، ۱۶/ ۲۹۴)
ابو طالب عشاری فضائل الصدیق میں راوی، امیر المؤمنین مولٰی علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ الکریم فرماتے ہیں:

وھل انا الاّ حسنۃ من حسنات ابی بکر ۱؎

میں کون ہوں مگر ابو بکر کی نیکیوں سے ایک نیکی۔

 (۱ ؎ جامع الاحادیث بحوالہ ابی طالب العشاری، حدیث ۷۶۸۴،دارالفکر بیروت، ۱۶/ ۲۰۸)
  خیثمہ طرابلسی وابن عسا کر ابو الزناد سے راوی، ایک شخص نے مولٰی علی سے عرض کی: یا امیر المؤمنین! کیا بات ہوئی کہ مہاجرین وانصار نے ابو بکر کو تقدیم دی حالانکہ آپ کے مناقب بیشتر اور اسلام وسوابق پیشتر، فرمایا: اگر مسلمان کے لئے خدا کی پناہ نہ ہوتی تو میں تجھے قتل کردیتا، افسوس تجھ پر، ابوبکر چار وجہ سے مجھ پر سبقت لے گئے، افشائے اسلام میں مجھ سے پہلے، ہجرت میں مجھ سے سابق، صحبت غار میں انہیں کا حصہ، نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے امامت کے لئے انہیں کو مقدم فرمایا

ویحک ان اﷲ ذم الناس کلھم ومدح ابابکر فقال الا تنصروہ فقد نصرہ اﷲ۲؎ ،

 (الاٰیۃ) افسوس تجھ پر بیشک اﷲتعالٰی نے سب کی مذمت کی اور ابوبکر کی مدح فرمائی کہ ارشاد فرماتا ہے اگر تم اس نبی کی مدد نہ کرو تو ا ﷲ تعالٰی نے اس کی مدد فرمائی جب کافروں نے اسے مکے سے باہر کیا دوسرا ان دو کا جب وہ غارمیں تھے جب اپنے یار سے فرماتا تھا غم نہ کھا اﷲ ہمارے ساتھ ہے۔

 (۲؎جامع الاحادیث بحوالہ خیثمہ وابن عساکر حدیث ۷۶۸۹، دارالفکر بیروت، ۱۶/ ۲۰۹)
 خطیب بغدادی وابن عساکر اور دیلمی مسند الفردوس اور عشاری فضائل الصدیق میں امیر المؤمنین مولٰی علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ الکریم سے راوی، رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں:

سألت اﷲ ثلٰثا ان یقدمک فابی علی الا تقدیم ابی بکر۳؎

  اے علی! میں نے اﷲ عزوجل سے تین بار سوال کیا کہ تجھے تقدیم دے اﷲ تعالٰی نے نہ مانا مگر ابوبکر کو مقدم رکھنا۔

 (۳ ؎ تاریخ بغداد، حدیث ۵۹۲۱، دارالکتاب العربی، بیروت، ۱۱/ ۲۱۳)

(کنزالعمال بحوالہ ابی طالب العشاری وغیرہ حدیث ۳۵۶۸۰، موسسۃ الرسالہ، بیروت،۱۲/ ۵۱۵)
ابن عساکر سالم بن ابی الجعد سے راوی، فرمایا:

قلت لمحمد بن الحنفیۃ ھل کان ابو بکر اول القوم اسلاما قال لا قلت فیما علا ابو بکر و سبق حتی لا یذکر احد غیر ابی بکر قال لانہ کان افضلھم اسلاما حین اسلم حتی لحق بربہ۱؎

میں نے امام محمد بن حنفیہ صاحبزادہ مولاعلی رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے دریافت کیا کہ ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ سب سے پہلے اسلام لائے تھے، فرمایانہ۔ میں نے کہا پھر کس وجہ سے ابوبکر سب پر بلند و سابق ہوئے کہ ان کے سوا کوئی دوسرے کا ذکر ہی نہیںکرتا، فرمایا: اس لئے کہ وہ جب سے مسلمان ہوئے اور جب تک اپنے رب عزوجل کے پاس گئے ان کا ایمان سب سے افضل رہا۔

 (۱ ؎ الصواعق المحرقۃ بحوالہ ابن عساکر، الباب الثانی، مکتبہ مجیدیہ، ملتان، ص ۵۳)
امام دارقطنی جندب اسدی سے راوی:

ان محمد بن عبداﷲ بن الحسن اتاہ قوم من اھل الکوفۃ والجزیرۃ فسألوہ عن ابی بکر و عمر فالتفت الیّ فقال انظر الی اھل بلاد ک یسأ لونی عن ابی بکر و عمر لھما افضل عندی من علی ۲؎

یعنی امام نفس زکیہ محمد بن عبداﷲ محض ابن امام حسن مثنٰی ابن امام حسن مجتبٰی ابن مولٰی علی مرتضی کرم اﷲ تعالٰی وجوھہم کے پاس اہل کوفہ و جزیرہ سے کچھ لوگو ں نے حاضر ہو کر ابو بکر صدیق و عمر فاروق رضی اﷲ تعالٰی عنہما کے بارے میں سوال کیا امام نے میری طرف التفات کرکے فرمایا اپنے وطن والوں کو دیکھو مجھ سے ابو بکر و عمر کے با ب میں سوال کرتے ہیں بیشک وہ دونوں میرے نزدیک علی سے افضل ہیں رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین۔

 (۲ ؎ الصواعق المحرقۃ بحوالہ الدارقطنی عن جندب الاسدی، مکتبہ مجیدیہ، ملتان، ص ۵۵)
انہیں دلائل پر اکتفا کرتاہوں اللہ تعالی سمجھنے کی توفیق عطافرمائے
آمین
خادم العلماء فقیر محمد اسحاق قادری

Post a Comment

0 Comments